Athar nafees biography of williams
سوانحی نوٹ : اطہر نفیس
اطہر نفیس اُردوُ ادب میں ایک جدید غزل گو شاعر کی حیثیت سے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ وُہ سنہ 1933 میں برٹش انڈیا کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ اصل نام کنور اطہر علی خان تھا اور شعری / ادبی نام اطہر نفیس اختیار کیا۔ وُہ بھارت کے مشہور شاعر اخلاق محمّد خان شہر یارؔ 1936 تا 2012 کے بھانجے یا بھتیجے تھے۔ شہر یار کی لکھی کئی خوبصورت غزلیں بھارتی آرٹ فلموں گھمَن، اُمراؤ جان ادا اور ساتھ ساتھ میں شامل ہوئیں اور عوام میں بے حد مقبول ہوئیں۔
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو
زندگی جب بھی تری بزم میں لاتی ہے ہمیں
یہ کیا جگہ ہے دوستو !
یہ کون سا دیار ہے
جُستجوُ جس کی تھی اُس کو تو نہ پایا ہم نے
اطہر نفیس پندرہ سال کی عمر میں، سنہ 1948 میں ، برٹش انڈیا کے خوُنیں بٹوارے کے ایک سال بعد ، ہجرت کر کے کراچی چلے آئے اور تمام عمر یہیں گزار دی۔ وُہ ایک طویل عرصے تک روزنامہ جنگ سے وابستہ رہے۔ اُنہوں نے اخباری کالم بھی لکھے اور جنگ اخبار میں انتظامی نوعیت کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔
اطہر نفیس نے تمام عمر تنہا گزاری اور کسی کو اپنا شریک ِ حیات نہیں بنایا۔ اُن کا یہ فیصلہ اُس وقت کے پاکستان میں اُن کے لیے زیادہ مشکلات کا باعث نہیں بنا ہو گا۔ لیکن آج، سنہ 2022 کے پاکستان میں، تمام عمر شادی نہ کرنے کے اِس فیصلے پر اُنہیں سماج میں قبوُل نہ کیا جاتا۔ آج سوہنی دھرتی پر ریاست اور سماج کسی بھی شہری کے ذاتی / بنیادی / انسانی حقوق ماننے کو تیّار نہیں ہے۔
افسانوی مجموعے “انگارے” کی سنہ 1931 میں اشاعت کے وقت سے فرسوُدہ رسوم و روایات کے خلاف اُبھرنے والی ترقّی پسند تحریک، سوشلسٹ /کمیونسٹ خیالات اور ایک روشن خیال سماجی سمجھوتے کے لیے اُٹھنے والی تمام آوازوں کو بیس سال کے کم عرصے میں سنہ 1951 کے راولپنڈی سازش کیس کے دائر ہونے تک سیاسی انجنئیرنگ کے ذریعے پاکستان میں دفن کروا دیا گیا۔ پاکستان اور بھارت نے سنہ 1947 میں اپنی اپنی ریاست میں موجود کمیونسٹ/ سوشلسٹ کارکنوں کی فہرستیں ایک دوسرے سے سانجھی کیِں۔
Anti-Communist McCarthyism: Late 1940s-1954.
سعادت حسن منٹو پہ سیشن جج منیر ، نظریہ ضرورت کے موُجد، کے سنہ 1950 کے عدالتی فیصلے کے ذریعے افسانے لکھنے پر عملی طور پر پابندی لگا دینا ، سنہ 1949 کے پاکستان میں برطانوی ایم۔آئی۔ 6 اور امریکی سی آئی اے کی ہدایات پر پاکستانی سی آئی ڈی اور سپیشل برانچ کے جاسوسوں/مخبروں کے ذریعے لکھاریوں ، صحافیوں، طالبعلموں کی نگرانی اور اُنہیں کمیونسٹ مخالف بننے کی ترغیب دینے کے لیے وزارت ِ داخلہ میں ایک خفیہ کمیونسٹ مخالف ذیلی کمیٹی اور وزارت ِ اطلاعات میں وزیر ِ اعظم سے خفیہ رکھا جانے والا کمیونسٹ مخالف ایڈوائزری سیل بنانا پاکستانی ریاست کی فوجی / نوکر شاہی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کی گئی سیاسی انجنئیرنگ تھی۔
حوالہ جات
ڈی کلاسیفائیڈ امریکی خفیہ دستاویزیں جو فریڈم آف انفارمیشن قانون کے تحط سنہ 2017 میں منظر ِ عام پر آئیں۔
دریچ ویب سائیٹ پر ترقّی پسند تحریک کا مختصر تعارف
http://dareechah.com/hum_kahaan_se_chale_thay/progressive_writers_movement_india_pakistan
آج کے مذہبی انتہا پسندی میں ڈوُبے پاکستان میں عام آدمی کا کسی عورت کے لیے عشق کا جذبہ جاگنے کا اعتراف کرنا مشکل ہے۔ ایک عام پاکستانی خاتوُن کا کسی مرد کے لیے عشق کے جذبے کے اُبھرنے کا اعتراف کرنا خطرہ مول لینا ہے۔ اگر عام پاکستانی سے ذاتی /شخصی محبت کے انسانی حق کے بارے میں پوچھا جائے تو ہر کوئی عشق ِ حقیقی کا داعی بننے ہی میں اپنی عافیت سمجھتا ہے۔
اطہر نفیس جس لڑکی سے عشق کرتے تھے اُسے نہ پا سکے اور کبھی شادی نہ کرنے کے اپنے فیصلے پر تاحیات قائم رہے ۔ اِس پس منظر میں اُن کا ایک شعر اہم ہے۔ وُہ کہتے ہیں کہ محبت میں ناکامی کے بعد جینا سیکھنا ہی انسان کی اصل آزمائش ہے۔
راہ ِ وفا میں جاں دینا ہی پیش رَوؤں کا شیوہ تھا
ہم نے جب سے جینا سیکھا ، جینا کار ِ مثال ہؤا
پیش رَو : آگے چلنے والا ۔ شیوہ : طور طریقہ ۔
کار ِ مثال : لائق ِ تحسین عمل ، احسن شیوہ ۔
یوں تو اطہر نفیس نے شعر کہنا علی گڑھ میں قیام کے دنوں ہی سے شروع کر دیا تھا لیکن سنجیدگی اور باقاعدگی کے ساتھ شعر کہنے کا سلسلہ کراچی آ کر شروع ہؤا ۔ زیادہ تر غزلیں ہی لکھیِں جو اُن کی پہچان بنیِں مگر اِس کے علاوہ اُنہوں نے آزاد نظمیں بھی تحریر کیِں۔ سنہ 1980 کی دہائی میں پاکستان ٹی ۔ وی۔ کے لاہور سٹوڈیوز سے فریدہ خانم نے اطہر نفیس کی ایک غزل وُہ عشق جو ہم سے روُٹھ گیا اپنے منفرد انداز میں گائی جو نشر ہونے کے بعد سارے پاکستان میں اطہر نفیس کی عوامی شہرت کا باعث بنی۔ میرا اندازہ ہے کہ ارباب ِ اختیار نے یہ مہربانی اُس وقت کی جب اُنہیں یہ خبر موصوُل ہوئی کہ اطہر نفیس طویل علالت کے بعد مئی 21، سنہ 1980 کو کراچی میں انتقال کر گئے ہیں ۔ اِس غزل کے سنہ 1980 میں نشر ہونے کی میرے اندازے کی تصدیق بریلی، انڈیا کے رہائشی بی۔ ایم۔ عبّاسی کے ایک کومنٹ سے ہوتی ہے جو اُنہوں نے یو ٹیوب چینل پر اِس غزل کے میوزک وڈیو کے نیچے کومنٹس سیکشن میں دیا ہے۔ وُہ لکھتے ہیں کہ اُنہوں نے یہ غزل ریڈیو پاکستان کے شارٹ ویو سٹیشن کی نشریات میں سنہ 1980 میں سُنی تھی۔
اطہر نفیس کی شاعری کا مجموعہ’’کلام‘‘ کے نام سے سنہ 1975 میں ادارہ فنوُن، لاہور سے احمد ندیم قاسمی نے شائع کیا۔ یہاں ایک بار پھر میرا مفروضہ یہ ہے کہ غالباً یہ مجموعہ ءِ کلام سنہ 1975 میں اِس لیے چھپ سکا کیونکہ اُس سال اطہر نفیس سخت علیل ہو چکے تھے اور زندگی کی اُمید معدوُم ہوتی جا رہی تھی۔ یہی علالت پانچ سال کے لمبے عرصے تک چلی اور بالآخر سنہ 1980 میں اُن کی رحلت کا باعث بنی ۔
حوالہ جات
پیمانہ ءِ غزل (جلد دوم) ، کراچی۔ مدیر : محمد شمس الحق،صفحہ 274
اردوُ ادبی ویب سائیٹ ریختہ کا اطہر نفیس سیکشن جہاں مختصر تعارفی نوٹ کے علاوہ اطہر نفیس کی بائیس غزلیں بھی دستیاب ہیں۔
https://www.rekhta.org/poets/athar-nafees/profile?lang=ur
YouTube channel where original Woh Ishq ghazal sung by Fareeda Khanum is uploaded:
B M Abbasi
1 origin ago
I used to listen halt this ghazal on Radio Pakistan broadcasts (from different stations).
Berserk was a B. A. scholar. In those days medium inspiration and short wave transmissions conduct operations Radio Pakistan were available join Indian listeners of Radio Pakistan. It was 1980.
From Bareilly, U.P. , India. November 2020.